Sunday, June 26, 2022

قسم ہے فجر کی! اور دس راتوں کی

 

اللہ تعالی نے ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں کو  سال کے دیگر ایام پر فضیلت اور امتیاز عطا کیا ہے‘  سب سے پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان ایام کا ذکر خصوصیت کے ساتھ قرآن میں کیا ہے‘ فرمان باری تعالی ہے: (لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ)

ترجمہ: اپنے فائدے حاصل کرنے کو آجائیں اور ان مقرره دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں اور چوپایوں پر جو پالتو ہیں (اللہ کا نام لیں)۔

مقررہ دنوں سے مراد ذی الحجہ کے دس دن ہیں‘ جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے  کہ : (مقررہ دنوں سے مراد ذی الحجہ کے دس دن ہیں)([1])۔

ذی الحجہ کے دس دنوں کی فضیلت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے ان دس راتوں کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا: (وَالْفَجْرِ وَلَيَالٍ عَشْرٍ)

ترجمہ: قسم ہے فجر کی! اور دس راتوں کی!

 ابن کثیر رقم طراز ہیں: دس راتوں سے مراد ذی الحجہ کے دس دن ہیں ‘ جیسا کہ ابن عباس‘ ابن الزبیر‘ مجاہد اور بہت سے اسلاف اور اخلاف سے منقول ہے۔انتہی

ذی الحجہ کے دس دنوں کی فضیلت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ان دنوں میں کئے جانے والے اعمال کا ثواب سال کے دیگر ایام کے بالمقابل زیادہ ہوتا ہے‘  ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" ذی الحجہ کے دس دنوں کے مقابلے میں دوسرے کوئی ایام ایسے نہیں جن میں نیک عمل اللہ کو ان دنوں سے زیادہ محبوب ہوں“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی نہیں، سوائے اس مجاہد کے جو اپنی جان اور مال دونوں لے کر اللہ کی راہ میں نکلا پھر کسی چیز کے ساتھ واپس نہیں آیا“([2])۔

ابن رجب رحمہ اللہ کے قول کا خلاصہ ہے کہ: یہ ایک نہایت عظیم  اور مہتم بالشان حدیث ہے‘ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ  مفضول اور کمتر عمل بھی اگر با فضیلت وقت میں   کیا جائے تو وقت کی فضیلت کی وجہ سے  وہ فضیلت والے  اعمال سے بھی  زیادہ افضل ترین  ہوجاتا ہے ‘ نیز اس بات کی بھی دلیل ہے کہ  ذی الحجہ کے دس دنوں میں کیا جانے والا عمل دیگر ایام میں کئے جانے والے اعمال صالحہ سے کہیں زیادہ افضل ہے‘ اس عموم  سے صرف سب سے افضل قسم کا جہاد ہی  مستثنی ہے ‘ وہ یہ ہے   کہ انسان جان ومال کے ساتھ نکلے ‘ پھر کسی کے ساتھ  واپس نہ آسکے۔

یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ ذی الحجہ کے دس دنوں میں  اداکئے جانے والے نوافل  رمضان کے آخری عشرہ میں کئے جانے والے نوافل سے افضل ہیں‘ اسی طرح ذی الحجہ کے دس دنوں میں ادا کئے جانے والے فرائض بھی دیگر ایام کے فرائض سے کہیں بڑھ کر ہیں۔([3])انتہی

ذی الحجہ کے ان دس دنوں کی فضیلت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ان میں یوم عرفہ آتا ہے ‘ جس دن اللہ تعالی نے اپنے دین کو مکمل فرمایا اور یہ آیت نازل فرمائی:   (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا)

ترجمہ: آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔

ذی الحجہ کے ان دس دنوں کی فضیلت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ان میں یوم النحر (قربانی کا دن) آتا ہے ‘ جوکہ حج اکبر کا دن ہے‘ جس دن بہت سی عبادتیں یکجا ہوجاتی ہیں‘ وہ یہ ہیں: نحر ( قربانی کرنا)‘ طواف کرنا‘ سعی کرنا‘ بال منڈانا یا کٹوانا‘ اور رمیِ جمرات کرنا‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے: ”اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک سب سے عظیم دن یوم النحر (دسویں ذی الحجہ کا دن) ہے پھر یوم القرّ (گیارہویں ذی الحجہ کا دن) ہے “([4])۔

یوم النحر کو یوم القرّ سے موسو م کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس دن حجاج کرام منی میں قیام اور آرام کرتے ہیں۔

·       اے مسلمانو! ان دس دنوں میں مندرجہ  ذیل چھ اعمال کو انجام دینے کی زیادہ اہمیت وفضیلت آئی ہے:

۱-کثرت سے الحمد للہ‘ لا الہ الا اللہ اور اکبر کا ورد کرنا‘  عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "الله تعالی کے نزدیک ان د س دنوں کے بالمقابل کسی بھی دن میں نیک عمل کرنا   زیادہ عظیم اور محبوب نہیں‘ اس لئے ان دنوں میں لا الہ الا اللہ ‘ اللہ اکبر اور الحمدللہ کا کثرت سے ورد کیا کرو"([5])۔

بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ابن عمر اور ابو ہریرۃ ان دس دنوں میں بازار میں نکلتے او ر بلند آواز سے تکبیر پڑھتے  چنانچہ  لوگ بھی ان کو دیکھ تکبیر  کہنے لگتے ([6])۔

تکبیر کی صفت یہ ہے : (اللہ اکبر‘ اللہ اکبر‘ لا الہ الا اللہ ‘ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد)۔

معلوم ہوا کہ  ان دس دنوں میں اللہ اکبر‘ الحمد للہ اور لا الہ الا اللہ کا ورد کرنامشروع ہے‘ مسجدوں ‘ گھروں ‘ راستوں اور ہر اس  جگہ پر ان کا ورد کرنا  مشروع ہے  جہاں اللہ کا ذکر کرنا جائز ہے‘ تاکہ عبادت کا مظاہرہ اور  عظمت الہی کا اعلان ہوسکے۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ مرد بلند آواز سے ان کلمات کا ورد کرے اور عورت اگر مردوں کے درمیان ہو تو آواز پست رکھے۔

آج کے زمانے میں تکبیر کی سنت ترک کردی گئی ہے‘ آپ بہت کم لوگوں کو تکبیر پڑھتے ہوئے سنیں گے‘ لہذا  اس سنت کو  زندہ کرنے اور غافلوں کو ہوشیار وخبردار کرنے کے لئے بلند آواز سے تکبیر پڑھنا  چاہئے ‘  تاکہ دیکھا دیکھی دیگر لوگ  بھی تکبیر کا اہتمام کریں‘ ہر انسان انفرادی طور پر تکبیر پڑھے‘ بیک آواز  اجتماعی طور پر تکبیر پڑھنا مقصود نہیں ‘ بلکہ یہ غیر مشروع عمل ہے۔

۲-ان دس دنوں میں جو اعمال مشروع ہیں ان میں روزے بھی ہیں‘ چنانچہ بندہ مسلم کے لئے یہ نہایت مستحب عمل ہے کہ ذی الحجہ کے نو دنوں کے روزے رکھے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ذی الحجہ کے نو روزے رکھا کرتے تھے‘ ہنیدۃ بن خالد اپنی بیوی سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض بیویوں سے روایت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذی الحجہ کے نو روزے، عاشوراء کے دن (یعنی دسویں محرم کو) اور ہر مہینے میں تین روزے رکھتے  اور  ہر مہینہ کے پہلے دوشنبہ (پیر) کو، اور اس کے بعد والی جمعرات کو، پھر اس کے بعد والی جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے([7])۔

ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا : (مجھے کسی ایسے عمل کا حکم دیجئے جس سے اللہ مجھے نفع پہنچائے) ‘ آپ نے فرمایا: تم روزے کا اہتمام کرو کیوں کہ اس کی کوئی نظیر نہیں ہے ([8])۔

۳-ان دس دنوں میں جو اعمال کرنا مشروع ہے ‘ ان میں عرفہ کے دن کا روزہ رکھنا بھی ہے‘  اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے: عرفہ کے دن کا روزہ ایسا ہے کہ میں امیدوار ہوں اللہ پاک سے کہ ایک سال اگلے اور ایک سال پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو جائے([9])۔

۴-ان دس دنوں میں  جو اعمال کرنا مشروع ہے ‘ ان میں عید کی نماز ادا کرنا بھی ہے ‘ جو کہ ایک مشہور ومعروف بات ہے۔

۵- ان دس دنوں میں  جو اعمال کرنا مشروع ہے‘ ان میں قربانی کے جانور ذبح کرنا بھی ہے ‘ یہ ہر صاحب استطاعت کے لئے سنت مؤکدہ ہے ‘  عید الاضحى کے دن قربانی کے جانور ذبح کرنا دیگر ایام تشریق کے مقابلے میں زیادہ افضل ہے‘ کیوں کہ عید الاضحى کا دن ذی الحجہ کے دس دنوں میں سب سے آخری دن ہے‘ اور یہ دس دن سال کے تمام دنوں سے افضل ہیں‘ جب کہ ایامِ تشریق ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں شامل نہیں ہیں‘ نیز اس لئے بھی کہ عید کے دن جانور ذبح کرنا عمل صالح میں جلدی کرنے کے قبیل سے ہے([10])۔

۶-ذی الحجہ کے دس دنوں میں جو اعمال کرنا مشرو ع ہے‘ ان میں حج او رعمرہ کی ادائیگی بھی ہے‘  اس عشرہ میں ادا کیا جانے والا یہ سب سے افضل عمل ہے‘ جس کو اللہ تعالی حج  بیت اللہ کی توفیق عطا کرے‘ اور وہ مطلوبہ طریقے کے مطابق مناسکِ حج کو ادا کرے اور اللہ کے منع کردہ امور سے اجتناب کرے ‘ یعنی شور وغوغا‘ فسق وفجور اور لڑائی جھگڑا  (سے باز رہے) تو وہ اس کا مستحق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے  وعدے کے  مطابق اس  اجر وثواب سے فیض یاب  ہو کہ: مقبول حج کا بدلہ جنت ہی ہے([11])۔

اللہ کے بندو! یہ چھ عبادتیں ہیں‘ جو کہ ذی الحجہ کے دس دنوں میں ادا کئے جانے والے مستحب اعمال میں سر فہرست  ہیں‘ یہ عبادتیں پورے سال کے دیگر با فضیلت  ایام کے مقابلے  میں ذی الحجہ  کے دس دنوں کے  ساتھ مختص ہیں‘  ان د س دنوں کے اندر چونکہ یہ عبادتیں یکجا ہوجاتی ہیں‘ اس لئے ان ایام کو سال کے دیگر ایام پر یک گونہ فضیلت حاصل ہے‘ بایں طور کہ تمام بنیادی عبادتیں ان میں یکجا ہوجاتی ہیں‘ جیسے نماز ‘ روزہ ‘ صدقہ اور حج‘ یہ عبادتیں دیگر دنوں میں یکجا نہیں ہوتیں۔یہ ابن حجر رحمہ اللہ کا قول ہے([12])۔

اللہ کے بندو! یہ تعجب کی بات ہے کہ  لوگ  رمضان کے آخری عشرہ میں خوب نشاط اور سرگرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ جب کہ ذو الحجہ کے ان دس دنوں میں وہ نشاط اور سرگرمی نہیں دکھاتے ‘ جب کہ یہ  ایام زیادہ  فضیلت اور عظمت کے حامل ہیں۔

جلیل القدر تابعی سعید بن جبیر رحمہ اللہ کا یہ طرز عمل تھا کہ جب ذ و الحجہ کے دس دن آتے تو حد درجہ محنت اور لگن سے عبادت کرتے  یہاں تک کہ جان  جوکھوں میں ڈال لیتے([13])۔

ان کا یہ قول  بھی روایت کیا جاتا ہے کہ : "عشرہ ذی الحجہ کی راتوں میں چراغ مت بجھایا کرو"([14])۔ یعنی ان راتوں کو تلاوت اور تہجد سے آباد رکھا کرو۔

آئیے ہم اللہ سے مدد طلب کرتے ہوئے ان ایام میں کثرت سے اعمال صالحہ انجام دیتے ہیں‘ ان اعمال کی انجام دہائی کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور  ان اعمال کے اجرو ثواب  کی اللہ تعالی سے امید رکھتے ہیں‘ کیوں کہ آج عمل کا موقع ہے اور حساب وکتاب نہیں‘ اور کل (قیامت کے دن) حساب وکتاب ہوگا اور عمل کا موقع نہیں: (سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ)

ترجمہ: (آؤ) دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان وزمین کی وسعت کے برابر ہے یہ ان کے لیے بنائی گئی ہے جو اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں۔

الله تعالی مجھے اور آپ سب کو قرآن کی برکتوں سے بہرہ مند فرمائے ‘ مجھے اور آپ سب کو اس کی آیتوں اور حکمت پر مبنی نصیحت سے فائدہ پہنچائے ‘ میں اپنی یہ بات کہتے ہوئے اللہ تعالی سے مغفرت کا خواستگار ہوں‘ آپ بھی اس سے مغفرت طلب  کریں‘ یقینا وہ خوب معاف کرنے والا بڑا مہربان ہے۔

عَشَرُ» سے مراد عید الاضحی کے دس دن ہیں اور «وَتْرُ» سے مراد عرفے کا دن ہے اور «شَّفْعُ» سے مراد قربانی کا دن ہے

 



بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـنِ الرَّحِيمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعالٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ 
 

  
وَالْفَجْرِ[1] وَلَيَالٍ عَشْرٍ[2] وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ[3] وَاللَّيْلِ إِذَا يَسْرِ[4] هَلْ فِي ذَلِكَ قَسَمٌ لِذِي حِجْرٍ[5] أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ[6] إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ[7]الَّتِي لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ[8] وَثَمُودَ الَّذِينَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ[9]وَفِرْعَوْنَ ذِي الْأَوْتَادِ[10] الَّذِينَ طَغَوْا فِي الْبِلَادِ[11] فَأَكْثَرُوا فِيهَا الْفَسَادَ[12] فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ[13] إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ[14]

  ! [2] اور جفت اور طاق کی ! [3] اور رات کی جب وہ چلتی ہے ! [4] یقینا اس میں عقل والے کے لیے بڑی قسم ہے۔ [5] کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے عاد کے ساتھ کس طرح کیا۔ [6] ( وہ عاد) جو ارم ( قبیلہ کے لوگ) تھے، ستونوں والے۔ [7] وہ کہ ان جیسا کوئی شہروں میں پیدا نہیں کیا گیا۔ [8] اور ثمود کے ساتھ ( کس طرح کیا) جنھوں نے وادی میں چٹانوں کو تراشا۔ [9] اور میخوں والے فرعون کے ساتھ ( کس طرح کیا)۔ [10] وہ لوگ جو شہروں میں حد سے بڑھ گئے۔ [11]پس انھوں نے ان میں بہت زیادہ فساد پھیلا دیا۔ [12] تو تیرے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسایا۔ [13] بے شک تیرا رب یقینا گھات میں ہے۔ [14]
........................................
شخص جانتا ہے یعنی صبح اور یہ مطلب بھی ہے کہ بقر عید کے دن کی صبح، اور یہ مراد بھی ہے کہ صبح کے وقت کی نماز، اور پورا دن اور دس راتوں سے مراد ذی الحجہ مہینے کی پہلی دس راتیں۔ 

چنانچہ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ کوئی عبادت ان دس دنوں کی عبادت سے افضل نہیں، لوگوں نے پوچھا: اللہ کی راہ کا جہاد بھی نہیں؟، فرمایا: یہ بھی نہیں مگر وہ شخص جو جان مال لے کر نکلا اور پھر کچھ بھی ساتھ لے کر نہ پلٹا ۔  [صحیح بخاری:969] ‏‏‏‏ 

بعض نے کہا ہے محرم کے پہلے دس دن مراد ہیں۔
10569

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں رمضان شریف کے پہلے دس دن لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے یعنی ذی الحجہ کی شروع کی دس راتیں۔ 

مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ «عَشَرُ» سے مراد عید الاضحی کے دس دن ہیں اور «وَتْرُ» سے مراد عرفے کا دن ہے اور «شَّفْعُ» سے مراد قربانی کا دن ہے ۔  [مسند احمد:327/3:مرفوعاً ضعیف] ‏‏‏‏ اس کی اسناد میں تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن متن میں نکارت ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»  

«وَتْرُ» سے مراد عرفے کا دن ہے یہ نویں تاریخ ہوتی ہے تو «شَّفْعُ» سے مراد دسویں تاریخ یعنی بقر عید کا دن ہے وہ طاق ہے یہ جفت ہے واصل بن سائب رحمہ اللہ نے عطاء رحمہ اللہ سے پوچھا کہ کیا «وَتْرُ» سے مراد یہی وتر نماز ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، «شَّفْعُ» عرفہ کا دن ہے اور «وَتْرُ» عید الاضحی کی رات ہے۔ 

سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما خطبہ پڑھ رہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ «شَّفْعُ» کیا ہے اور «وَتْرُ» کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: «فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ»  [2-البقرة:203] ‏‏‏‏ میں جو دو دن کا ذکر ہے وہ «شَّفْعُ»ہے اور «وَمَن تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ»  [2-البقرة:203] ‏‏‏‏ میں جو ایک دن ہے وہ «وَتْرُ» ہے یعنی گیارہویں، بارہویں ذی الحجہ کی «شَّفْعُ» اور تیرھویں «وَتْرُ» ہے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ایام تشریق کا درمیانی دن «شَّفْعُ» ہے اور آخری دن «وَتْرُ» ہے۔  [تفسیر ابن جریر الطبری:37102:ضعیف] ‏‏‏‏
10570

بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ کے ایک کم ایک سو نام ہیں جو انہیں یاد کر لے جنتی ہے وہ وتر ہے، وتر کو دوست رکھتا ہے ۔  [صحیح بخاری:6410]‏‏‏‏ 

زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد تمام مخلوق ہے اس میں «شَّفْعُ» بھی ہے اور «وَتْرُ» بھی۔‏‏‏‏ 

یہ بھی کہا گیا ہے کہ مخلوق «شَّفْعُ» اور اللہ «وَتْرُ» ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ «شَّفْعُ» صبح کی نماز ہے اور «وَتْرُ» مغرب کی نماز ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ «شَّفْعُ» سے مراد جوڑ جوڑ اور «وَتْرُ» سے مراد اللہ عزوجل جیسے آسمان، زمین، تری، خشکی، جن، انس، سورج، چاند وغیرہ۔ 

قرآن میں ہے «وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ»  [51-الذاريات:49] ‏‏‏‏ یعنی ” ہم نے ہر چیز کو جوڑ جوڑ پیدا کیا ہے تاکہ تم عبرت حاصل کر لو “ یعنی جان لو کہ ان تمام چیزوں کا خالق اللہ واحد ہے جس کا کوئی شریک نہیں، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد گنتی ہے جس میں جفت بھی ہے اور طاق بھی ہے۔ 

ایک حدیث میں ہے کہ «شَّفْعُ» سے مراد دو دن ہیں اور «وَتْرُ» سے مراد تیسرا دن ہے۔ یہ حدیث اس حدیث کے مخالف ہے جو اس سے پہلے گزر چکی ہے۔ 

ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد نماز ہے کہ اس میں «شَّفْعُ» ہے جیسے صبح کی دو، ظہر، عصر اور عشاء کی چار، چار اور وتر ہے جیسے مغرب کی تین رکعتیں جو دن کے «وَتْرُ» ہیں اور اسی طرح آخری رات کا «وَتْرُ» ۔ 

ایک مرفوع حدیث میں مطلق نماز کے لفظ کے ساتھ مروی ہے، بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرض نماز مروی ہے لیکن یہ مرفوع حدیث نہیں۔ زیادہ ٹھیک یہی معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے۔  [مسند احمد:437/4:ضعیف] ‏‏‏‏ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
10571

امام ابن جریر رحمہ اللہ نے ان آٹھ نو اقوال میں سے کسی کو فیصل قرار نہیں دیا۔ پھر فرماتا ہے رات کی قسم جب جانے لگے اور یہ بھی معنی کیے گئے ہیں کہ جب آنے لگے بلکہ یہی معنی زیادہ مناسب اور «وَالْفَجْرِ» سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں۔ «فجر» کہتے ہیں رات کے جانے کو اور دن کے آنے کو تو یہاں رات کا آنا اور دن کا جانا مراد ہو گا۔ 

جیسے آیت «وَاللَّيْلِ إِذَا عَسْعَسَ» * «وَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفَّسَ»  [81-التكوير:17-18] ‏‏‏‏ میں عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد مزدلفہ کی رات ہے «حِجْرٍ» سے مراد عقل ہے، «حِجْرٍ» کہتے ہیں روک کو چونکہ عقل بھی غلط کاریوں اور جھوٹی باتوں سے روک دیتی ہے اس لیے اسے عقل کہتے ہیں۔ حطیم کو بھی «حجر البیت» اسی لیے کہتے ہیں کہ وہ طواف کرنے والے کو کعبۃ اللہ کی شامی دیوار سے روک دیتا ہے اسی سے ماخوذ ہے «حِجْرُ الْيَمَامَةِ» اور اسی لیے عرب کہتے ہیں «وَحَجَرَ الْحَاكِمُ عَلَى فُلَانٍ» جبکہ کسی شخص کو بادشاہ تصرف سے روک دے اور کہتے ہیں کہ «وَيَقُولُونَ حِجْرًا مَحْجُورًا»  [25-الفرقان:22] ‏‏‏‏ تو فرماتا ہے کہ ” ان میں عقلمندوں کے لیے قابل عبرت قسم ہے “، کہیں تو قسمیں ہیں عبادتوں کی کہیں عبادت کے وقتوں کی جیسے حج نماز وغیرہ کہ جن سے اس کے نیک بندے اس کا قرب اور اس کی نزدیکی حاصل کرتے ہیں اور اس کے سامنے اپنی پستی اور خود فراموشی ظاہر کرتے ہیں جب ان پرہیزگار نیک کار لوگوں کا اور ان کی عاجزی و تواضع خشوع و خضوع کا ذکر کیا تو اب ان کے ساتھ ہی ان کے خلاف جو سرکش اور بدکار لوگ ہیں ان کا ذکر ہو رہا ہے۔ 

تو فرماتا ہے کہ ” کیا تم نے نہ دیکھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے عادیوں کو غارت کر دیا جو کہ سرکش اور متکبر تھے، اللہ کی نافرمانی کرتے، رسول کی تکذیب کرتے اور بدیوں پر جھک پڑتے تھے ان میں اللہ کے رسول ہود علیہ السلام آئے تھے “۔ یہ عاد اولیٰ ہیں جو عاد بن ارم بن سام بن نوح کی اولاد میں تھے، اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایمانداروں کو تو نجات دے دی اور باقی بےایمانوں کو تیز و تند اور ہلاک آفریں ہواؤں سے ہلاک کیا۔ سات راتیں اور آٹھ دن تک یہ غضب ناک آندھی چلتی رہی اور یہ سارے کے سارے اس طرح غارت ہو گئے کہ ان کے سر الگ تھے اور دھڑ الگ تھے ان میں سے ایک بھی باقی نہ رہا جس کا مفصل بیان قرآن کریم میں کئی جگہ ہے۔ سورة الحاقہ میں بھی یہ بیان ہے «سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَثَمَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا فَتَرَى الْقَوْمَ فِيهَا صَرْعَىٰ كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ» * «فَهَلْ تَرَىٰ لَهُمْ مِنْ بَاقِيَةٍ»  [69-الحاقہ:7-8] ‏‏‏‏۔
10572

«إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ»  [89-الفجر:7] ‏‏‏‏ یہ عاد کی تفسیر بطور عطف بیان کے ہے تاکہ بخوبی وضاحت ہو جائے، یہ لوگ مضبوط اور بلند ستونوں والے گھروں میں رہتے تھے اور اپنے زمانے مکے اور لوگوں سے بہت بڑے تن و توش والے قوت و طاقت والے تھے اسی لیے ہود علیہ السلام نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا «وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ وَزَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَسْطَةً فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللَّـهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ»  [7-الأعراف:69] ‏‏‏‏ الخ یعنی ” یاد کرو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں قوم نوح کے بعد زمین پر خلیفہ بنایا ہے اور تمہیں جسمانی قوت پوری طرح دی، تمہیں چاہیئے کہ اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فسادی بن کر نہ رہو “۔ 

اور جگہ ہے کہ «فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّـهَ الَّذِي خَلَقَهُمْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً»  [41-فصلت:15] ‏‏‏‏ یعنی ” عادیوں نے زمین میں ناحق سرکشی کی اور بول اٹھے کہ ہم سے زیادہ قوت والا اور کون ہے؟ کیا وہ بھول گئے کہ ان کا پیدا کرنے والا ان سے بہت ہی زبردست اور طاقت و قوت والا ہے “۔ 

یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ اس قبیلے جیسے طاقتور اور شہروں میں نہ تھے بڑے طویل القامت قوی الجثہ تھے، ارم ان کا دار السلطنت تھا۔ انہیں ستونوں والے کہا جاتا تھا اس لیے بھی کہ یہ لوگ بہت دراز قد تھے بلکہ صحیح وجہ یہی ہے۔ 

«مِثْلُهَا» کی ضمیر کا مرجع «عِمَادِ» بتایا گیا ہے ان جیسے اور شہروں میں نہ تھے یہ احقاف میں بنے ہوئے لمبے لمبے ستون تھے اور بعض نے ضمیر کا مرجع قبیلہ بتایا ہے یعنی اس قبیلے جیسے لوگ اور شہروں میں نہ تھے اور یہی قول ٹھیک ہے اور اگلا قول ضعیف ہے اسی لیے بھی کہ یہی مراد ہوتی تو «لَمْ یَجْعَلٌ»کہا جاتا نہ کہ «لَمْ يُخْلَقْ» ۔ 

ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ان میں اس قدر زور و طاقت تھی کہ ان میں سے کوئی اٹھتا اور اور ایک بڑی ساری چٹان لے کر کسی قبیلے پر پھینک دیتا تو بیچارے سب کے سب دب کر مر جاتے ۔  [الدر المنثور للسیوطی:583/6:ضعیف] ‏‏‏‏ 

ثور بن زید دیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک ورق پر یہ لکھا ہوا پڑھا ہے کہ میں شداد بن عاد ہوں، میں نے ستون بلند کیے ہیں، میں نے ہاتھ مضبوط کیے ہیں، میں نے سات ذرائع کے خزانے جمع کیے ہیں، جو امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نکالے گی، غرض خواہ یوں کہو کہ وہ عمدہ اونچے اور مضبوط مکانوں والے تھے خواہ یوں کہو کہ وہ بلند و بالا ستونوں والے تھے یا یوں کہو کہ وہ بہترین ہتھیاروں والے تھے یا یوں کہو لمبے لمبے قد والے مطلب یہ ہے کہ ایک قوم تھی جن کا ذکر قرآن کریم میں کئی جگہ ثمودیوں کے ساتھ آ چکا ہے، یہاں بھی اسی طرح عادیوں اور ثمودیوں کا دونوں کا ذکر ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
10573

بعض حضرات نے یہ بھی کہا کہ «إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ» ایک شہر ہے یا تو دمشق یا اسکندریہ لیکن یہ قول ٹھیک نہیں معلوم ہوتا اس لیے کہ عبارت کا ٹھیک مطلب نہیں بنتا کیونکہ یا تو یہ بدل ہو سکتا ہے یا عطف بیان۔ 

دوسرے اس لیے بھی کہ یہاں یہ بیان مقصود ہے کہ ہر ایک سرکش قبیلے کو اللہ نے برباد کیا جن کا نام عادی تھا، نہ کہ کسی شہر کو میں نے اس بات کو یہاں اس لیے بیان کر دیا ہے تاکہ جن مفسرین کی جماعت نے یہاں یہ تفسیر کی ہے کہ ان سے کوئی شخص دھوکے میں نہ پڑے وہ لکھتے ہیں کہ یہ ایک شہر کا نام ہے جس کی ایک اینٹ سونے کی ہے دوسری چاندی کی اس کے مکانات، باغات وغیرہ سب چاندی سونے کے ہیں کنکر لولو اور جواہر ہیں، مٹی مشک ہے نہریں بہہ رہی ہیں، پھل تیار ہیں، کوئی رہنے سہنے والا نہیں ہے، در و دیوار خالی ہیں، کوئی ہاں ہوں کرنے والا بھی نہیں، یہ شہر جگہ بدلتا رہتا ہے کبھی شام میں، کبھی یمن میں، کبھی عراق میں، کبھی کہیں، کبھی کہیں، وغیرہ یہ سب خرافات بنو اسرائیل کی ہیں ان کے بددینوں نے یہ خود ساختہ روایت تیار کی ہے تاکہ جاہلوں میں باتیں بنائیں۔ 

ثعلبی وغیرہ نے بیان کیا ہے کہ ایک اعرابی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اپنے گمشدہ اونٹوں کو ڈھونڈ رہا تھا کہ جنگل بیابان میں اس نے اسی صفت کا ایک شہر دیکھا اور اس میں گیا، گھوما پھرا، پھر لوگوں سے آ کر ذکر کیا لوگ بھی وہاں گئے لیکن پھر کچھ نظر نہ آیا۔
10574

ابن ابی حاتم نے یہاں ایسے قصے بہت سے لمبے چوڑے نقل کیے ہیں یہ حکایت بھی صحیح نہیں اور اگر یہ اعرابی والا قصہ سنداً صحیح مان لیں تو ممکن ہے کہ اسے ہوس اور خیال ہو اور اپنے خیال میں اس نے یہ نقشہ جما لیا ہو اور خیالات کی پختگی اور عقل کی کمی نے اسے یقین دلایا ہو کہ وہ صحیح طور پر یہی دیکھ رہا ہے اور فی الواقع یوں نہ ہو - 

ٹھیک اسی طرح جو جاہل حریص اور خیالات کے کچے ہوں سمجھتے ہیں کہ کسی خاص زمین تلے سونے چاندی کے پل ہیں اور قسم قسم کے جواہر یاقوت لولو اور موتی ہیں اکسیر کبیر ہے لیکن ایسے چند موانع ہیں کہ وہاں لوگ پہنچ نہیں سکتے مثلا خزانے کے منہ پر کوئی اژدھا بیٹھا ہے کسی جن کا پہرہ ہے وغیرہ یہ سب فضول قصے اور بناوٹی باتیں ہیں انہیں گھڑ گھڑا کر بیوقوفوں اور مال کے حریصوں کو اپنے دام میں پھانس کر ان سے کچھ وصول کرنے کے لیے مکاروں نے مشہور کر رکھے ہیں، پھر کبھی چلے کھینچنے کے بہانے سے، کبھی بخور کے بہانے سے، کبھی کسی اور طرح سے، ان سے یہ مکار روپے وصول کر لیتے ہیں اور اپنا پیٹ پالتے ہیں، ہاں یہ ممکن ہے کہ زمین میں سے جاہلیت کے زمانے کا یا مسلمانوں کے زمانے کا کسی کا گاڑا ہوا مال نکل آئے تو اس کا پتہ جسے چل جائے وہ اس کے ہاتھ لگ جاتا ہے نہ وہاں کوئی مار گنج ہوتا ہے، نہ کوئی دیو، بھوت، جن، پری جس طرح ان لوگوں نے مشہور کر رکھا ہے یہ بالکل غیر صحیح ہے یہ ایسے ہی لوگوں کی خود ساختہ بات ہے یا ان جیسے ہی لوگوں سے سنی سنائی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نیک سمجھ دے۔
10575

امام ابن جریر رحمہ اللہ نے بھی فرمایا ہے کہ ممکن ہے اس سے قبیلہ مراد ہو اور ممکن ہے شہر مراد و لیکن ٹھیک نہیں، یہاں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایک قوم کا ذکر ہے نہ کہ شہر کا، اسی لیے اس کے بعد ہی ثمودیوں کا ذکر کیا کہ وہ ثمودی جو پتھروں کو تراش لیا کرتے تھے۔ 

جیسے اور جگہ ہے «وَتَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا فٰرِهِيْنَ»  [26-الشعراء:149] ‏‏‏‏ یعنی ” تم پہاڑوں میں اپنے کشادہ آرام دہ مکانات اپنے ہاتھوں پتھروں میں تراش لیا کرتے ہو “۔ اس کے ثبوت میں کہ اس کے معنی تراش لینے کے ہیں، عربی شعر بھی ہیں۔ 

ابن اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں ثمودی عرب تھے وادی القری میں رہتے تھے عادیوں کا قصہ پورا پورا سورۃ الاعراف میں ہم بیان کر چکے ہیں، اب اعادہ کی ضرورت نہیں، پھر فرمایا: میخوں والا فرعون، «أَوْتَادُ» کے معنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے لشکروں کے کیے ہیں جو کہ اس کے کاموں کو مضبوط کرتے رہتے تھے۔ 

یہ بھی مروی ہے کہ فرعون غصے کے وقت لوگوں کے ہاتھ پاؤں میں میخیں گڑوا کر مروا ڈالتا تھا، چورنگ کر کے اوپر سے بڑا پتھر پھینکتا تھا جس سے اس کا کچومر نکل جاتا تھا۔ 

بعض لوگ کہتے ہیں کہ رسیوں اور میخوں وغیرہ سے اس کے سامنے کھیل کیے جاتے تھے اس کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ اس نے اپنی بیوی صاحبہ کو جو مسلمان ہو گئی تھیں لٹا کر دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں میں میخیں گاڑیں پھر بڑا سا چکی کا پتھر ان کی پیٹھ پر مار کر جان لے لی، اللہ ان پر رحم کرے۔ 

پھر فرمایا کہ ان لوگوں نے سرکشی پر کمر باندھ لی تھی اور فسادی لوگ تھے، لوگوں کو حقیر و ذلیل جانتے تھے اور ہر ایک کو ایذاء پہنچاتے تھے نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کے عذاب کا کوڑا برس پڑا۔ وہ وبال آیا جو ٹالے نہ ٹلا، ہلاک و برباد اور نیست و نابود ہو گئے، تیرا رب گھات میں ہے دیکھ رہا ہے، سن رہا ہے، سمجھ رہا ہے، وقت مقررہ پر ہر برے بھلے کو نیکی، بدی کی جزاء سزا دے گا یہ سب لوگ اس کے پاس جانے والے تن تنہا اس کے سامنے کھڑے ہونے والے ہیں اور وہ عدل و انصاف کے ساتھ ان میں فیصلے کرے گا اور ہر شخص کو پورا پورا بدلہ دے گا جس کا وہ مستحق تھا وہ ظلم و جور سے پاک ہے۔
10576

یہاں ابن ابی حاتم نے ایک حدیث وارد کی ہے جو بہت غریب ہے جس کی سند میں کلام ہے اور صحت میں بھی نظر ہے اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے معاذ! مومن حق کا قیدی ہے، اے معاذ! مومن تو امید وہم کی حالت میں ہی رہتا ہے، جب تک کہ پل صراط سے پار نہ ہو جائے۔ اے معاذ! مومن کو قرآن نے بہت سی دلی خواہشوں سے روک رکھا ہے تاکہ وہ ہلاکت سے بچ جائے، قرآن اس کی دلیل ہے، خوف اس کی حجت ہے، شوق اس کی سواری ہے، نماز اس کی پناہ ہے، روزہ اس کی ڈھال ہے، صدقہ اس کا چھٹکارا ہے، سچائی اس کی امیر ہے، شرم اس کا وزیر ہے اور اس کا رب ان سب کے بعد اس پر واقف و آگاہ ہے وہ تیز تیز نگاہوں سے اسے دیکھ رہا ہے ، اس کے راوی یونس حذاء اور ابوحمزہ مجہول ہیں پھر اس میں ارسال بھی ہے ممکن ہے یہ ابوحمزہ ہی کا کلام ہو۔  [ضعیف و منقطع] ‏‏‏‏ 

اسی ابن ابی حاتم میں ہے کہ ابن عبدالکلاعی نے اپنے ایک وعظ میں کہا: لوگو! جہنم کے سات پل ہیں ان سب پر پل صراط ہے پہلے ہی پل پر لوگ روکے جائیں گے یہاں نماز کا حساب کتاب ہو گا یہاں سے نجات مل گئی تو دوسرے پل پر روک ہو گی، یہاں امانتداری کا سوال ہو گا جو امانت دار ہو گا اس نے نجات پائی اور جو خیانت والا نکلا ہلاک ہوا، تیسرے پل پر صلہ رحمی کی پرسش ہو گی اس کے کاٹنے والے یہاں سے نجات نہ پا سکیں گے اور ہلاک ہوں گے رشتہ داری یعنی صلہ رحمی وہیں موجود ہو گی اور یہ کہہ رہی ہو گی کہ اللہ جس نے مجھے جوڑا تو اسے جوڑ اور جس نے مجھے توڑا تو اسے توڑ یہی معنی ہیں «إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ»  [89-الفجر:14] ‏‏‏‏ یہ اثر اتنا ہی ہے پورا نہیں۔

Thursday, April 1, 2021

🐫قربانی کرنے اور نہ کرنے والے کیلئے بال اور ناخن کاٹنے اور نہ کاٹنے کا حکم

 

الف :-

؛

قربانی کا ارادہ رکھنے والے کو نبی اکرم صلی اللہ وسلم نے حکم دیا کہ ذوالحجہ کا چاند نظر آنے سے لے کر قربانی کرنے تک اپنےبال کاٹے نہ ناخن تراشے 


صحیح مسلم ،/١٦٠، ح ، ١٩٧٧ ک 


؛

سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے (مدینہ میں ) قربانی کرنے کے بعد سر کے بال منڈوائے ،فرمایا؛ یہ واجب نہیں 


موطّأ امام مالک ، ٢ /٤٨٣ ، وسندہ، صحیحٌ 


؛

سیدنا عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے ایام ذی الحجہ میں ایک عورت کواپنے بچے کے بال کاٹتے دیکھ کر فرمایا 


''اگر قربانی والے دن تک موخر کر دیتی تو بہتر تھا ''


المستدرک علی الصّحیحین للحاکم ، ٤/٢٤٦ ،ح ، ٧٥٢٠وسندہ، حسنٌ 


؛

قربانی کی استطاعت نہ رکھنے والا ذوالحجہ کا چاند نظر آنے سے پہلے جسم کے فاضل بال (زیر ناف )، سر کے بال اور مونچھیں کاٹلے، ناخن تراشے ،پھر قربانی تک اس سے پرہیز کرے ، تو اسے قربانی کا پورا اجروثواب ملے گا 


مسند أحمد ، ٢/١٦٩، سنن أبي داؤد ، ٢٧٨٩، سنن النّسائي ، ٤٣٦٥، وسندہ، حسنٌ)

اسے امام ابنِ حبان (٥٩١٤)، امام حاکم (٤/٢٢٣)، اور حافظ ذہبی نے ''صحیح '' کہا ہے 


ب 


عشرۂ ذی الحجہ میں بال اور ناخن ترشوانے کا حکم 


جو لوگ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں، ان کے لئے ذی الحجہ کا چاند نظر آنے سے لے کر قربانی کرنے تک بال اور ناخن تراشنے کیممانعت ہے 


حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ  نے فرمایا 


إِذَا دَخَلَتِ الْعَشْرُ وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّىَ فَلاَ يَمَسَّ مِنْ شَعَرِهِ وَبَشَرِهِ شَيْئًا“ رواه مسلم، ح ن (

1) ت


یعنی جب ذی الحجہ کا پہلا عشرہ داخل ہو، اور تم میں سے کسی کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو تو اپنے بال اور کھال میں سے کسی کوہاتھ نہ لگائے 


ایک روایت میں ہے 

فَلاَ يَأْخُذَنَّ شَعْرًا وَلاَ يَقْلِمَنَّ ظُفُرًا، ح ن (

2) ت


تو وہ نہ بال کاٹے نہ ناخن تراشے 


اور ایک روایت میں ہے 


إِذَا رَأَيْتُمْ هِلاَلَ ذِى الْحِجَّةِ وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّىَ فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعْرِهِ وَأَظْفَارِهِ


رواه مسلم، ح ن (

3) ت، والنسائي، ح ن (

4) ت، وغيرهما، مشكاة مع المرعاة، 5/ 86 


یعنی جس نے ذی الحجہ کا چاند دیکھا اور اس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے 


اس حدیث کی بناء پر امام احمد، اسحاق، سعید بن المسیب، ربیعہ، اور بعض شافعیہ و حنابلہ وغیرہ اس بات کی جانب گئے ہیں کہجس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو اس کے لئے ذی الحجہ کے پہلے عشرہ میں اپنے ناخن اور بال کاٹنا اور کٹوانا جائز نہیں، کیونکہ بظاہرنہی تحریم کے لئے ہے، یہی فتویٰ علماء اہل حدیث کا بھی ہے ، ح ن (

5) ت


بعض ائمہ نے یہاں نہی کو تنزیہی مانا ہے، اور اس کی بنیاد پر اس عشرہ میں بال کاٹنے کو صرف مکروہ قرار دیا ہے، مگر راجح پہلاقول ہی معلوم ہوتا ہے 


البتہ اگر کسی نے ناخن اور بال کٹوا لئے تو اس کے اوپر کوئی کفارہ نہیں ہے، اس کے لئے صرف توبہ واستغفار کرنا ہی کافی ہے 


علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں 


فَإِنَّهُ يَتْرُكُ قَطْعَ الشَّعْرِ وَتَقْلِيمَ الْأَظْفَارِ، فَإِنْ فَعَلَ اسْتَغْفَرَ اللَّهَ تَعَالَى، وَلَا فِدْيَةَ فِيهِ إجْمَاعًا، سَوَاءٌ فَعَلَهُ عَمْدًا أَوْ نِسْيَانًا“ ، ح ن (

6) ت


قربانی کا ارادہ رکھنے والا بال او ر ناخن تراشنا ترک کردے گا اور اگر اس نے تراش لیا تو اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرے گا اوربالاجماع اس پر فدیہ نہیں ہے، خواہ اس نے ایسا عمدا کیا ہو یا بھول چوک کر 


اور جو قربانی کا ارادہ نہیں رکھتا اس کے لئے اس عشرہ میں ناخن اور بال تراشنے سے ممانعت کے بارے میں میری نگاہ سے کوئیصریح حدیث نہیں گذری، البتہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا 


"أُمِرْتُ بِيَوْمِ الْأَضْحَى عِيدًا جَعَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ، قَالَ الرَّجُلُ، يَا رَسُولَ اللَّهِأَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَجِدْ إِلَّا مَنِيحَةً أُنْثَى أَفَأُضَحِّي بِهَا؟ قَالَ، لَاوَلَكِنْ خُذْ مِنْ شَعْرِكَ وَأَظْفَارِكَ وَتَقُصُّ مِنْ شَارِبِكَ وَتَحْلِقُ عَانَتَكَ فَذَلِكَ تَمَامُ أُضْحِيَّتِكَ عِنْدَ اللَّهِ


رواه ابوداود ، ح ن (

7) ت، والنسائي ، ح ن (

8) ت، والحاكم ، ح ن (

9) ت، وصححه، ووافقه الذهبي، وضعفه الألباني، انظر المشکاة مع تعليق الألباني،1/ 466 [1479] والمشكاة مع المرعاة، 1/ 466 ک 


مجھے قربانی کے دن عید منانے کا حکم دیا گیا ہے، اللہ تعالی نے اس امت کے لئے اسے عید قرار دیا ہے، اس پر آپﷺ سے ایکشخص نے عرض کیا، اگر میرے پاس دودھ کے لئے عاریۃً دی گئی بکری کے سوا کوئی جانور نہ ہو تو کیامیں اسی بکری کی قربانیکردوں؟ آپ نے فرمایا، نہیںلیکن (قربانی کے دناپنے بال اور ناخن تراش لو، اپنے مونچھ کے بال کاٹ لو اور زیر ناف بال کا حلق کرلو،یہ اللہ کے نزدیک تمہاری مکمل قربانی ہو جائے گی 


اس حدیث کی بناء پر بعض علماء نے اس شخص کے لئے بھی جس کے پاس قربانی کی استطاعت نہ ہو، اس عشرہ میں ناخن اور بالتراشوانے سے اجتناب کرنے کو کہا ہے، لیکن جیساکہ آپ دیکھ رہے ہیں اس حدیث میں ناخن اور بال تراشنے کی ممانعت نہیں ہے، بلکہاس کے لئے قربانی کے دن سر، مونچھ، اور زیر ناف بال اور ناخن کے کاٹنے کی فضیلت اور قربانی کے برابر اجر وثواب کا بیان ہے،اسی بنا پر امام نسائی وغیرہ نے اسے ”باب مَنْ لَمْ يَجِدِ الأُضْحِيَةَ“ کے تحت ذکر کیا ہے 


اس واسطے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس کے پاس قربانی کرنے کی استطاعت نہ ہو، اگر وہ اس عشرہ میں ناخن اور بال مختصراًتراش لے، اور پھر دس تاریخ کوبھی تراش لے تو وہ اس اجر سے محروم اور کسی ممنوع چیز کا مرتکب نہیں ہوگا 


یاد رہے کہ اس حدیث کی تصحیح و تضعیف کے بارے میں اختلاف ہے، مگر راجح یہ ہے کہ یہ ضعیف ہے اس واسطے غیر مستطیع کےلئے یوم النحر کو بال اور ناخن ترشوانے پر قربانی کے ثواب کی بات محل نظر ہے 


واللہ اعلم 


________ 


حوالہ نمبر تخریج 


ح ن (1) ت 

صحيح مسلم،6/83 [5232] كتاب الأضاحي، باب نهي من دخل عليه عشر ذي الحجة وهو مريد التضحية أن يأخذ من شعره أو أظفارهشيئا 


ح ن (2) ت 

المصدر السابق 


ح ن (3) ت 

صحيح مسلم،13/ 138[1977] كتاب الأضاحي،باب نهي من دخل عليه عشر ذي الحجة وهو مريد التضحية أن يأخذ من شهره أو أظفارهشيئا 


ح ن (4) ت 

سنن النسائي،7/211 [4361] كتاب الضحايا 


ح ن (5) ت 

انظر المرعاة،5/ 87، التعليقات السلفية، 2/ 194 ک 


ح ن (6) ت 

المغني، 8/ 619 [7853] ک 


ح ن (7) ت 

سنن أبي داود،3/ 93 [2789] كتاب الضحايا، باب ما جاء في إيجاب الأضاحي، وقال الألباني، ضعيف 


ح ن (8) ت 

سنن النسائي،7/ 212 [4365] كتاب الضحايا، باب من لم يجد الأضحية 


ح ن (9) ت 

مستدرك الحاكم،4/223 [7529] كتاب الأضاحي 


~~~~؛ 

 

قسم ہے فجر کی! اور دس راتوں کی

  اللہ تعالی نے ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں کو  سال کے دیگر ایام پر فضیلت اور امتیاز عطا کیا ہے‘  سب سے پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ا...